خزانے کی تلاش میں خوفناک سفر

خزانے کی تلاش میں خوفناک سفر

کسی شہر کے قریب ایک بہت پرانا محل تھا۔ جس جگہ محل تھا وہ جگہ بہت ویران اور سنسان تھی۔ لوگ اس طرف جانے سے ڈرتے تھے کیونکہ لوگ کہتے تھے جو بھی محل کے پاس گیا یہ اس کے اندر کبھی واپس لوٹ کےنہیں آیا۔

For more Stories

رات کے وقت محل سے عجیب و غریب آوازیں آتی تھی۔ جسں سے لوگ بہت خوف ذادہ ہوتے تھے۔ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ اس محل میں جو بادشاہ گزرے ہیں اس میں ان سب کے خاندان اور ان کی روحیں ہیں۔

علی بھی اس شہر میں رہتا تھا۔ وہ ان سب باتوں پہ یقین نہیں کرتا تھا۔ لیکن اس نے یہ بھی سنا تھا کہ اس محل میں بہت سارا خزانہ بھی ہے اور وہ سوچتا تھا کسی دن وہ محل میں خزانہ لینے جا ۓ گا۔ اس کو لالچ بھی تھا اور ان چیزوں کو دیکھنے میں دلچسپی بھی تھی۔ 

For Music and information visit my this site

ایک دن علی کے ساتھ اس کے کچھ دوست بھی تھےاور انہوں نے سوچا آج رات ہم محل جاۓ گے اور خزانہ تلاش کرے گے۔

آخر کار علی اور اس کے دوست محل پہنچ گئے۔ جب انہوں نے محل کا دروازہ کھولا” تو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔”

 علی اور اس کے ساتھ اس کے تین دوست تھے۔ ان میں سے ایک جس کا نام شانی تھا  اس کو بہت ڈر لگتا تھا وہ کہتا ہے 

محل میں بہت خاموشی تھی۔ ان سب کو سرد ہوا سی محسوس ہوئی۔ وہ جب محل میں اندر جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں محل کے کمروں میں بہت پرانا فرنیچر ادھر ادھر پڑا ہے۔” شانی پھر کہتا ہے؛ “یار مجھے ڈر لگ رہا چلتے ہیں واپس”

باقی دوست اس کا مذاق اڑتے ہیں۔ اور “ہنستے ہیں”علی کہتا ہے چپ کرو کچھ نہیں ہوتا ۔ تھوڑی دیر بعد ان کو ایک کمرے سے رونے کی اواز آتی ہے۔ وہ سب خاموش ہو جاتے ہیں۔ وہ اس کمرے کی جانب بڑھتے ہیں۔ کمرے کا دروازہ کھولتے ہیں تو وہاں کوئی نہیں ہوتا۔ وہ سب ایکدم پریشان ہو جاتے ہیں۔ اچانک علی کو محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی اس کے پاس سے گزر ہے۔ اب ان سب پہ ایک خوف طاری ہو جاتا ہے۔ 

If you love cars and sports then visit this site

شانی وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب وہ دروازہ کو کھولنے کی کوشش کرتا ہے تو نہیں کھلتا۔ اب وہ لوگ اور بھی ذیادہ ڈر جاتے ہیں۔ علی سوچتا ہے وہ لوگ اب بہت بڑی مشکل میں پھنس چکے ہوتے ہیں۔ وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں پھر ایک کمرے سے آواز آتی ہے تم لوگ یہاں کیا کرنے آیا ہو۔ تو علی کہتا ہے ہم خزانے کی تلاش میں آۓ ہیں اس کمرے سے ایک روشنی آتی ہے۔ اور وہ آواز ان کو کہتی ہے اندر آو۔ وہ لوگ چلے جاتے ہیں۔ تو وہاں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شیشہ رکھا ہو ہے۔ اور اس کے اندر سے  سیاہ رنگ کا سایہ نکل رہا ہے اور وہ بہت ہی بھیانک ہے۔ 

شانی ڈر سے کانپنے لگا۔باقی دوست بھی ڈر گۓ۔ علی ہمت کرتا ہے اور کہتا ہے کہاں ہے خزانہ تو وہ سایہ کہتا ہے تمہیں  اس آینہ میں اپنے خون کا ڈالنا  ہو گا اس کے بعد میں تمہیں خزانہ دو گا۔

علی کے دوست بولتے ہیں علی گھر واپس چلتے ہیں یہ ہمیں ٹھیک نہیں لگا رہا یہ کوئی بری طاقت ہے جو ہمیں اپنی جال میں پھنس کی کوشش کر رہی ہے علی کے دل میں لالچ ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے نہیں میں خزانہ لیے بغیر نہیں جاؤں گا یہاں سے۔ اس کے دوست اس کو روکتے ہیں لیکن وہ ان کی بات نہیں مانتا اور کس چیز سے اپنی انگلی کاٹ کر وہ خون کے قطرے اس آینہ پر ڈال دیتا ہے۔ خون کے قطرے ڈالتے ہی وہاں بہت سارا خزانہ آجاتا ہے علی بہت خوش ہوتا ہے خزانہ دیکھا کر وہ کہتا ہے اب ہمیں یہ خزانہ لے جا سکتے ہیں اس پر سایہ مسکراتے ہوئے کہتا ہے نہیں اب تم لوگ میری گرفت میں ہو اب تم لوگ کہی نہیں جا سکتے۔ علی کو غصہ آتا ہے بہت یہ سن کر تھوڑی دیر بعد علی محسوس کرتا ہے اس کا جسم بلکل بے سود ہو گیا ہے اور وہ کچھ نہیں کر پا رہا اس طرح اس کا پورا وجود سیاہ رنگ کے سایہ میں بدل کر اس آینہ میں چلا گیا۔ اور اس کے دوست بھی اس کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *